Monday, September 25, 2017

War crimes behind pictures

The long pending dispute of Jammu and Kashmir continues to take human lives every year, endlessly. In the year of 2016, the oppressed and suppressed people of Occupied Jammu and Kashmir have once again witnessed the worst kind of human rights violations by the hands of Indian forces. Kashmiri civilians have seen curfews, killings, torture, injuries, attacks on medical ambulances, assault on doctors & paramedical workers and crackdown on voluntary aid workers by various so called security agencies, raids, illegal detentions, disappearances, molestation, arson, Vandalizations of properties, restrictions on political, social and congregational religious activities, communication and Internet services ban and media gags throughout the year. However the year will always be remembered as “The year of Pellet Gun”.


The uninterrupted use of this horrific gun by the unbridled Indian forces has killed, blinded and maimed a huge number of Kashmiri civilians. The Security Forces, it is now widely accepted, have made and are making disproportionate and excessive use of pellet guns to deal with peaceful protests. “The Hindu”, a daily English newspaper published in India, has on August 19, 2016 reported that the Central Reserve Police Force(CRPF) told the Jammu and Kashmir High Court that it used 1.3 million pellets in just 32 days on Kashmiri civilians to control street protests.


Kashmiris in general believe that there was a conscious decision to fire the pellets into the eyes of civilians to punish them for demanding the right of self-determination. The Forces are meant to follow Standard Operating Procedure (SOP) which calls for targeting legs in extreme volatile conditions. However more than 90% of those injured have received injuries above the waist. “Government forces are deliberately aiming at chests and heads,” one of the doctors treating pellet victims in Srinagar hospital told the BBC on condition of anonymity. “They seem to be aiming to kill.” With the number of eye injuries Kashmiri citizens are facing, it is hard to believe that any attempt was made to fire below the waist. Pellet gun killings and blinding have been reported since 2010. However, this time pellet gun killings, and blinding have assumed monstrous proportions and far exceeded the number of such cases, reported earlier.


Pellet gun is usually considered as a non-lethal weapon but, in occupied Kashmir, it has been converted into a lethal weapon by using some special and deadly cartridges. The doctors, who attended on pellet victims, support the observation. Indian Express of 16 July, 2016 quotes doctors at SMHS as saying that the pellets now used are “sharp edged and irregular”.
A senior Ophthalmologist at the Hospital said that “foreign bodies (pellets) of new kind … For the first time the foreign bodies are more irregular and sharp edged, which causes more damage once it strikes the eye … “earlier we used to receive pellets which were round and homogeneous”. Another Ophthalmologist says, “These new pellets are more dangerous since these pellets have sharp edges, it is much dangerous, to what we used to see earlier”.

Dr. Natrajan, who operated upon those with pellet injuries, commenting upon the situation, states “this kind of situation is very rare. It is a disaster like situation and I am seeing such a situation for the first time”. He explains that a sharp edged pellet unlike a round pellet, pierces the eye ball and goes deep into the eye, resulting in a deeper injury, with least chance of restoration of eye sight.
Dr. Mahesh Shanmugam, who also conducted retinal surgeries at SMHS Srinagar, shocked by the situation says “this is not any ordinary situation. It is a race against time – this is war like situation as the number of this magnitude is unique”. He adds that most of the patients will need multiple surgeries.

Dr. Sudarshan K Kumar, who led the team of doctors from the All India Institute of Medical Sciences (AIIMS), a leading Delhi hospital, has said that the nature of the injuries was so severe that it was almost as if Kashmiri doctors were dealing with a “war-like situation”. (Courtesy: Hassan Banna Ms. Attiya Asim)


Sunday, September 24, 2017

Lethal use of Pellet guns in Kashmir

Indian attitude of manipulating the fact by projecting Kashmiri lady picture injured by pellet guns shown in United Nation by Pakistan's representative Maleeha Lodhi as Palestinian lady injured in Gaza. How many facts india will manipulate. There are almost 964 pellet gun victims having miserable pictures and videos. The guardian has termed blinding of Kashmiris by pellet guns in Indian occupied Kashmir as one of the biggest blinding activity of human history. 

Few more evidences of Indian inhuman behaviour and blatant human right violations in Kashmir.




Saturday, September 23, 2017

'گائے کی موت پر ہنگامہ اور دلت کی موت پر خاموشی'

انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے ہرن کیدانا علاقے میں بہنے والے نالے میں آس پاس کے مکانات اور کمپنیوں کا انسانی فضلہ اور فیکٹریوں کا کیمیکل جمع ہوتا ہے۔
قریبی سڑک کی خالی جگہ پر نالے سے کئی روز قبل نکالا گيا گندہ کچرا اب سخت ہوگيا ہے۔ اس سے نکلنے والی تعفن اتنا شدید ہے کہ سانس لینا مشکل ہے۔
اسی نالے کو صاف کرنے کے لیے نیتو اور اجیت اس کے اندر گردن تک ڈوبے ہوئے تھے۔ کئی بار اس کا پانی ان کی ناک تک چلا جاتا، دونوں نے اپنا منہ زور سے بند کر رکھا تھا۔
ایک کے ہاتھوں میں بانس کی لمبی چھڑی تھی تو دوسرے کے ہاتھوں میں لوہے کا کانٹا جس سے وہ نالے کی تہہ میں پھنسے ہوئے کوڑے کچرے کو ہلانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ وہاں سے پانی کے نکلنے کی جگہ بنے۔
نیتو اور اجیت
Image captionنیتو اور اجیت
نیتو نے اشارہ کیا: 'کالا پانی گیس کا پانی ہوتا ہے، وہی گیس جو لوگوں کی جان لے لیتی ہے۔'
'ہم بانس مار کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کوئی گیس موجود ہے کہ نہیں، اور پھر ہم اس میں داخل ہوتے ہیں۔ بندے اس لیے مر جاتے ہیں کیونکہ وہ بغیر اسے دیکھے ہی اس میں کود پڑتے ہیں۔'
ایک دن میں 300 روپے کمانے کے لیے وہ نالے میں پائے جانے والے سانپوں اور مینڈک جیسے جانوروں کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
دبلے پتلے جانگیا پہنے ہوئے نیتو نالے سے نکل کر دھوپ میں کھڑے ہوئے تو ان کے بدن سے بہنے والا پسینہ اور جسم پر لگا گندہ کیچڑ ایک عجیب سی بو پیدا کر رہا تھا۔
سیور میں پائے جانے والے کانچ، کنکریٹ یا زنگ آلود لوہے سے نیتو کے پاؤں کئی بار زخمی ہوچکے ہیں۔ ان کے پیروں میں ایسے کچھ زخم ابھی بھی تازہ تھے کیونکہ ان کو بھرنے کا موقع نہیں مل پایا۔
خاکروبتصویر کے کاپی رائٹSUDHAKAR OLWAY
ایک غیر سرکاری ادارے 'پریکسس' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دہلی میں سیور صاف کرنے والے تقریبا 100 خاکروب ہر برس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
رواں برس جولائی اور اگست کے محض 35 دنوں میں 10 خاکروب ہلاک ہوئے۔
ایک تنظیم 'صفائی ملازمین اندولن' کے مطابق سنہ 1993 سے انڈيا میں تقریبا 1500 خاکروب ہلاک ہوئے ہیں۔ ادارے نے اس کے دستاویزی ثبوت جمع کیے ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
لاکھوں لوگ اب بھی یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کام سے وابستہ بیشتر افراد کا تعلق دلت سماج سے ہے۔ سیور میں زیادہ تر اموات ہائیڈروجن سیلفائید کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
خاکروب
وہ لوگ جو سیور میں کام کرتے ہیں انھیں دمہ، جلد اور پیٹ کی طرح طرح کی بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نیتو نے یہ کام 16 برس کی عمر سے شروع کیا تھا۔
دہلی میں وہ اپنے بہنوئی درشن سنگھ کی ایک فاسٹ فوڈ کی دکان میں رہتے ہیں۔ انھیں جُھگیوں میں بہت سارے خاکروب ملازمین رہتے ہیں۔
اس کے آس پاس آبادی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں سانس لینے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا تھا۔ دروازے پر کوڑے کے ڈھیر کو پار کر کے ہم درشن سنگھ کے ڈھابے پر پہنچے۔
درشن سنگھ نے 12 برس تک صفائی کا کام کیا لیکن پاس کی ایک عمارت میں اسی کام کے دوران ان کے دو ساتھیوں کی موت ہوگئی جس کے بعد انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔
خاکروبتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
انھوں نے بتایا:'ایک اپارٹمنٹ میں ایک پرانا گٹر طویل عرصے سے بند پڑا تھا۔ اس میں بہت گیس تھی۔ ہماری جھگیوں میں رہنے والے دو افراد نے 2000 روپے میں اسے صاف کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ پہلے جو بندہ گھسا وہ وہیں رہ گیا کیونکہ گیس بہت بھیانک تھی۔ اس کے بیٹے نے پاپا پاپا کی آواز لگائی۔ پاپا کی تلاش میں وہ بھی اندر گھسا لیکن واپس نہیں آیا۔ دونوں اندر ہی ختم ہو گئے۔ مشکل سے انھیں نکالا گیا۔ تبھی سے ہم نے یہ کام بند کر دیا۔'
قانون کے مطابق ہاتھ سے سیور صاف کرنے کا کام صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے خاکروب ملازمین کی حفاظت کے کئی طرح کا ساز و سامان دینا ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں بیشتر ایسے ملازمین ننگے بدن کی حالت میں سیور میں کام کرتے ہیں۔
اس طرح کے کام کے دوران ہلاک ہونے کی صورت میں حکومت کی طرف سے متاثرہ خاندان کو 10 لاکھ روپے تک کا معاوضہ دینے کی بھی تجویز ہے۔ لیکن 'آل انڈیا دلت مہاپنچایت' کے مور سنگھ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے بہت جد و جہد کرنی پڑتی ہے اور ہر شخص کو ایسی مدد نہیں مل پاتی ہے۔
حال ہی میں ایسے ہی ایک واقعے میں دہلی کے لوک جن نائیک ہسپتال کا گٹر صاف کرنے کے دوران 45 سالہ رشی پال کی بھی موت ہو گئی تھی۔
خاکروب
'صفائی ملازمین اندولن' کے بیزواڑا ولسن کہتے ہیں: 'اگر ایک مہینے میں دہلی میں 10 گائیں مر جائیں تو ہنگامہ مچ جائے گا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئيں گے۔ اسی شہر میں ایک ماہ میں 10 خاکروب ہلاک ہوئے لیکن ایک آواز نہیں اٹھی۔ ایسی خاموشی روحانی ایذا کا سبب ہے۔'
وہ کہتے ہیں: 'کوئی بھی شخص دوسرے کا پاخانہ پیشاب صاف نہیں کرنا چاہتا لیکن سماجی ڈھانچے کی وجہ سے دلت یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ جب ہم مریخ پر جانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں تو پھر اس مسئلے سے کیوں نہیں نمٹ پا رہے ہیں۔'
ولسن کے مطابق حکومت لاکھوں نئے بیت الخلا بنانے کی بات تو کرتی ہے لیکن ان کے لیے بنائے جا رہے پٹس یا گڑھوں کو صاف کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ہے۔
خاکروبتصویر کے کاپی رائٹSUDHAKAR OLWAY
نیتو کے بہنوئی درشن سنگھ کہتے ہیں: 'ہم ان پڑھ ہیں۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ خاندان کو پالنے کے لیے ہمیں یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم کسی بند گٹر کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو افسر کہتے ہیں، آپ اس میں گھسیں اور ہمیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مجبوراً یہ کام کرنا پڑتا ہے۔'
'کئی بار ہم اپنے بچوں کو نہیں بتاتے کیونکہ یہ گندا کام ہوتا ہے۔ ہم ان سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری کرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے انھیں سچ بتا دیا تو وہ ہم سے نفرت کرنے لگیں گے۔ کچھ لوگ شراب پیتے ہیں۔ مجبوری میں آنکھ بند کرکے کام کرتے ہیں۔'
'لوگ ہمیں دور سے پانی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، وہاں رکھا ہے، لے لو۔ نفرت بھی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ یہ گندا کام ہے۔ ہم اگر نفرت کریں گے تو ہمارا خاندان کیسے چلے گا۔'